نورالعَین کی بلّی
ایک دن حضرت کے مرید خاص قاضی رفیع الدین اودھی کے دل میں خیال آیا کہ اگلے زمانے میں ایسے بزرگ ہوتے تھے کہ وہ اگرجانوروں پر ایک نگاہ ولایت اثر ڈال دیتے تھے تو جانوربھی اللہ والے ادرصاحب کشف و کرامت ہوجاتے تھے، معلوم نہیں اس زمانے میں کوئی ایسا بزرگ ہے یا نہیں؟ حضرت ان کے اس خیال سے آگاہ ہو گئے۔ نورالعین کے پاس ایک بلی تھی جوکبھی کبھی | حضرت کے پاس آتی تھی، حضرت نے حکم دیا کہ نورالعین کی بلّی کو میرے پاس لاؤ فوراً لائی گئی تو حضرت نے کچھ معارف وحقائق بیان کیے، بلی حضرت کی تقریرسنتی رہی، پھر چہرۂ مبارک پر تغیر پیدا ہوا جسے دیکھ کر اصحاب خوفزدہ ہو گئے اور اسی عالم میں ایک نگاہ ولایت بلّی پر ڈال دیا، بلّی کچھ دیر بے ہوش پڑی رہی، جب اسے ہوش آیا توحضرت کے قدم چومنے لگی، اس کے بعداس بلی کی یہ عادت ہوگئی کہ حضرت جب اسرار و رموز بیان فرماتے تھے تو مجلس کے قریب ہی بیٹھی رہتی تھی۔ اس واقعہ کے بعد خانقاہ کی یہ خدمت بلّی کے سپرد ہوئی کہ روزانہ خانقاہ میں آنے والے مہمانوں کی تعداد باورچی خانے میں جاکر بتائے، خانقاہ میں جتنے مہمان آنے والے ہوتے تھے بلی باورچی خانہ میں جاکر اتنی ہی بار آواز دیتی، باورچی سمجھ جاتا کہ دسترخوان پرآج اتنے مہمان ہوں گے۔ اور اتنے مہمانوں کا کھانا پکایا جاتا۔ کھانا تقسیم ہوتے وقت بلّی کو بھی سب کے برابر کھانا دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ حضرت کو اگر کسی کو اپنی خدمت میں بلانا ہوتاتھاتوبلی بھیج دیتے تھے،بلّی اس کے پاس جاکر آواز دیتی اور وہ سمجھ جاتا کہ حضرت نے طلب فرمایا ہے۔
ایک دن خانقاہ میں در ویشوں کی ایک جماعت آئی، دستور کے مطابق بلّی نے لنگرخانہ میں جاکر آواز دی، اسی حساب سے کھانا پکایاگیا؛ لیکن جب دسترخوان پر کھانا لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ ایک مہمان کا کھانا کم ہے، حضرت نے فوراً حکم دیاکہ بلّی کو بلاؤ اور بلّی سے فرمایاکہ آج تجھ سے یہ غلطی کیوں ہوئی؟ بلّی فوراً با ہر چلی گئی اور مہمان خانے میں آئے ہوئے در ویشوں کے پاس جاکر ایک ایک کو سونگھناشروع کردیا،جب اس جماعت کے سردار کے پاس پہونچی تو اس کے اوپر پیشاب کردیا،حضرت نے فرمایا کہ بلّی بے قصور ہے یہ مرد اپنوں سے نہیں ہے بلکہ بیگانہ ہے۔ جماعت کا سردار فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور حضرت کے قدموں پر گر پڑا اور عرض کیا کہ میں دہریہ ہوں، عرصۂ بارہ سال سے درویشوں کا لباس پہن کر دنیا کاسفرکررہا ہوں، میری نیت تھی کہ جوصوفی یا عالم میرانفاق پہچان لیگا اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلوں گا؛ لیکن اب تک مجھے کو ئی نہ پہچان سکا، آج اس بلّی نے پردہ فاش کردیا۔ میں آپ کے دستِ مبارک پر صدق دل سے توبہ کرتا ہوں، حضرت نے اسی وقت اس کو مسلمان کیا اور مرید کیا اور خانقاہ میں ریاضت ومجاہدات میں مصروف کردیا، ایک مدت کے بعد جب اس کا تزکیۂ باطن ظاہر ہوگیا تو حضرت نے اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور شہر ”استنبول“ کا صاحب ولایت بناکر رخصت کیا۔
یہ بھی حضرت کے بعدبھی زندہ رہی، ایک دن حضرت غوث العالم کے جانشین حضرت حاجی عبدالرزاق نورالعین کے زمانے میں شیربرنج پکانے کے لیے دودھ سے بھری دیگ آگ پر رکھی گئی، اتفاق سے کالا ناگ دیگ میں گرپڑا، بلّی دیکھ رہی تھی، وہ دیگ کے گرد مسلسل پھرتی رہی اور بولتی رہی؛ لیکن باورچی نہیں سمجھ سکا، اس نے بلی کی حرکت سے عاجزآ کر اس کولنگرخانے سے باہر نکال دیا۔ جب بلّی نے دیکھا کہ با ورچی کسی طرح نہیں ہوشیار ہورہا ہے تو دوڑی ہوئی آئی اور دیگ میں کو دکراپنی جان دیدی، جب شیر برنج پھینکی گئی تواس میں وہ کالا ناگ نکلا اور سب کو بلّی کی اس بیقراری اور قربانی کا راز معلوم ہوا۔ حضرت نورالعین کو اس وفادار بلّی کے مرنے پر بڑا غم ہوا۔ اورفرمایاکہ اس بلّی نے اپنی جان در ویشوں پر قربان کر دی، لہٰذاباقاعدہ اس کی تجہیز و تکفین ہو اور اس کی پختہ قبر بنائی جائے، چنانچہ آستانہ عالیہ کے قریب دارالامان میں بلّی دفن کر دی گئی اور اس کی قبرپختہ بنائی گئی، اور اس کے گرد چبوترہ بنادیا گیایہ ”بی بی بلائی“کی مزار کے نام سے مشہور ہے اور زیارت گاہ عوام ہے۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972